ماں کی یاد میں
آپ بیتی
پتہ نہیں یہ کون ظالم لوگ ھیں جنہوں نے ماں جیسی نعمت کے لئے ایک دن” مدرز ڈے” کا نام دے کر اس کی محبت کو محدود کرنے کی کوشش کی ھے۔دراصل ھر دن ماں کا دن ھے۔
وہ خوش نصیب جن کی ماں زندہ ھیں وہ تو ھیں ھی جنتی لیکن ھمارے جیسے لوگ جن کی ماں اب اس دنیا میں نہیں وہ بھی مطمئن۔۔ اس یقین کے ساتھ کہ ماں مر کے بھی ٹھنڈی ھوائیں بھیجتی ھے اور رات کو سوتے میں ھمارے سرھانے بیٹھی رھتی ھے تا ھم سکون کی نیند سو سکیں۔
میں گھر میں سارے بھن بھائیوں میں بڑا ھوں لیکن بس زمانے کی گردشوں میں تمام بھن بھائیوں میں سب سے زیادہ ماں سے دور رھا۔
پہلے تعلیم، پھر ملازمت، پھر شادی بچے اور پھر 12 سال کے لئے کینیڈا چلا گیا۔
جب بچے بڑے ھونے لگے، تعلیم کی آخری سیڑھیوں پر چڑھے تو میں نے بچوں کو ان کی مرضی کے مطابق کینیڈا چھوڑ کر پاکستان آئینے کا سوچا اس نیت کے ساتھ کہ زیادہ وقت اپنے وطن، ماں بہن بھائیوں میں گزاروں گا۔
چونکہ میں کینیڈا میں ملازمت چھوڑ کر آیا تھا، آعلی تعلیم یافتہ اور تجربہ بھی تو میں نے دوبارہ پاکستان میں ملازمت کی کوشش کی۔ کراچی میں دو تین اچھی ملازمتیں مل بھی رھی تھیں لیکن کسی وجہ سے وہ میں نے کر سکا
( کیوں۔۔اس کا پتہ مجھے بعد میں چلا)۔
پھر ایک بھت اچھی ملازمت کی آفر ھوئ وہ بھی میرے آبائ شہر میں جہاں میری ماں تھی۔
چونکہ ھمارا جوائینٹ فیملی سسٹم ھے اس لئے میں ماں بہنوں بھائیوں کے ساتھ رھنے لگا۔
خوش نصیبی دیکھئیے میرا کمرہ ماں کے کمرے کے ساتھ تھا۔
میں روز صبح دفتر جاتے وقت دیکھتا اماں اپنے کمرے سے باہر نکل کر ورانڈے میں اپنے مخصوص صوفہ پر بیٹھی ملتیں۔ میں ان کے پاس جاتا، طبیعت پوچھتا اور گلے لگا کر دفتر کے لئے نکل جاتا۔
ایک سال بعد ماں اچانک چند گھنٹوں میں چلی گئ۔
میں اکثر سوچتا ھوں شائد اللہ مجھے پاکستان اور پھر اسی شہر میں ملازمت دے کر اس لئے لایا تھا کہ میں اپنی زندگی کا وہ وقت صبح شام ماں کے ساتھ گزاروں۔
میرا کمرہ وہی ھے لیکن ماں نہیں
ھاں البتہ ماں جیسی میری چھوٹی بہن اسی کمرے میں ھے۔۔ماں کی طرح خیال رکھنے اور پیار کرنے والی۔