جاھلوں کے لئے
یہ modern civilisation کا دور ھے۔ دنیا میں ھر سبجیکٹ پرجو کھربا کھرب معلومات، کہاوتیں،تصویریں اورکتابیں لکھی گئیں/فراھم کی جاتی ھیں وہ پوری دنیا میں جگہ جگہ preserve ھیں۔
وہ کسی ایک فرد، ایک قوم یا ایک ملک کے لئے نہیں بالکہ نہ صرف پوری دنیا کے لئے ھیں بالکہ وہ revolve اور recycle ھوتی رھتی ھیں تاکہ وہ معلومت مسلسل آنے والی نسلوں یا ان لوگوں تک بھی پہنچیں جو بعد میں پیدا یا جوان ھوئے۔
اگر 60 سال کے کسی فرد کو جو معلومات ھیں ضروری نہیں کہ وہ 20 سال کے نوجوان کو بھی ھوں یا
Vice versa
اگر کسی 20 سال کےنوجوان کو کوئ معلومات ھیں تو وہ ضروری نہیں 60 سال کے عمر رسیدہ شخص کو بھی ھوں؟
ھٹلر پر جو کتابیں 75 سال پہلے لکھی گئیں اور آج بھی لکھی جا رھی ھیں وہ مسلسل شائع ھوتی رھتی ھیں اور ان کے ایڈیشنز repeat اور update ھوتے رھتے ھیں تاکہ continuity رھے۔
ھم جو بھی معلومات کہیں اور کسی فورم پر فراھم/شئیر کرتے ھیں وہ ان لوگوں کے لئے ھوتی ھیں جنہیں نہیں معلوم۔
جب کسی 100/200 کے مجمع میں آپ کوئ لطیفہ سناتے ھیں تو ضروری نہیں مجمع میں پہلے سے وہ سب کا سنا حوا ھو؟
وہ لطیفہ ان کے لئے ھے جنہوں نے نہیں سنا، نا کہ ان کے لئے جنہوں نے سنا ھے۔
جب بینک اپنے 5 لاکھ کسٹمرز کوئ قرض کی قسطیں جمع کرانے کا نوٹس بھیجتا ھے تو وہ computer generated ھوتا ھے اور نیچے لکھا ھوتا ھے
“جنہوں نے جمع کرا دی ھیں وہ اس نوٹس کو نظر انداز کر دیں”۔
جب آپ آپنی دولت کا سوچیں تو اس سے پہلے قارون، بل گیٹس، گوگل کے CEO, زداری صاحب اور نواز شریف کو بھی سامنے رکھ لیا کریں آپ اپنے آپ کو بھت چھوٹا محسوس کرینگے۔
یہ ھمیشہ یاد رکھیں بڑا اور لا شریک صرف اللہ کی ذات ھے۔
ھم سب فانی ھیں۔
Live and let live
نوٹ: یہ پوسٹ ان لوگوں کے لئے ھے جو سوشل میڈیا پر صحتمند نکتہ چینی کرنے یا تبصرہ کی بجائے لکھتے ھیں:
اسکا کیا فائیدہ؟
ھمیں تو اس کا پہلے سے پتا تھا۔