Voice of America
لاہور ہائی کورٹ: شہباز شریف کو طبی بنیادوں پر بیرونِ ملک جانے کی اجازت
آخری بار اپ ڈیٹ کیا گیا: مئی 07, 2021

عدالت نے شہباز شریف کو آٹھ مئی سے پانچ جولائی تک آٹھ ہفتوں کے لیے بیرونِ ملک جانے کی مشروط اجازت دی ہے۔ وہ طبی بنیادوں پر صرف ایک بار بیرون ملک جا سکیں گے۔(فائل فوٹو)
تبصرے دیکھیںعدالت نے شہباز شریف کو آٹھ مئی سے پانچ جولائی تک آٹھ ہفتوں کے لیے بیرونِ ملک جانے کی مشروط اجازت دی ہے۔ وہ طبی بنیادوں پر صرف ایک بار بیرون ملک جا سکیں گے۔
لاہور ہائی کورٹ نے مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف شہباز شریف کو طبی بنیادوں پر بیرونِ ملک جانے کی اجازت دے دی ہے۔
عدالت نے شہباز شریف کو آٹھ مئی سے پانچ جولائی تک آٹھ ہفتوں کے لیے بیرونِ ملک جانے کی مشروط اجازت دی ہے۔ وہ طبی بنیادوں پر صرف ایک بار بیرون ملک جا سکیں گے۔
اس سے قبل لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی پر مشتمل ایک رکنی بینچ نے شہباز شریف کا نام بلیک لسٹ سے نکلوانے کی درخواست کی سماعت کی۔
عدالت میں وفاقی حکومت کی طرف سے ڈپٹی اٹارنی جنرل رانا عبدالشکور اور درخواست گزار کی طرف سے امجد پرویز ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔ عدالت کے طلب کرنے پر شہباز شریف بھی عدالت میں پہنچ گئے۔
سماعت کے دوران جسٹس علی باقر نجفی نے استفسار کیا کہ کیا شہباز شریف کوئی ضمانتی مچلکے جمع کرانا چاہتے ہیں؟
اس پر شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے میں کسی شہری کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے کوئی بھی شرط لگانے سے روکا گیا ہے۔
اس پر جسٹس باقر نقوی نے کہا کہ شہباز شریف عوامی نمائندے ہیں اور ضمانتی مچلکے کی شرط والا آپشن استعمال نہیں کیا جائے گا۔
سماعت کے دوران جسٹس علی باقر نجفی نے شہباز شریف سے پوچھا کہ کیا آپ اپنے لوگوں کے ساتھ عید نہیں کرنا چاہیں گے؟ اس پر شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اپنوں کے ساتھ عید کرنے سے صحت زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔
سرکاری وکیل رانا عبدالشکور نے مؤقف اختیار کیا کہ شہباز شریف نے روٹین کا وقت لے کر دستاویزات لف کی ہیں۔ ڈاکٹر کی آن لائن اپوائنمنٹ کوئی بھی شخص لے سکتا ہے۔ برطانیہ نے کرونا کی وجہ سے پاکستان کو ریڈ لسٹ پر رکھا ہوا ہے۔ شہباز شریف نے کوئی ٹھوس وجہ بطور ثبوت پیش نہیں کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف نے صحت کے میگا پراجیکٹ بنائے ہیں وہ یہاں رہ کر اپنا علاج کرا لیں۔
جسٹس علی باقر نجفی نے سرکاری وکیل سے کہا کہ آپ سے پوچھا تھا کہ شہباز شریف کا نام بلیک لسٹ میں ہے یا نہیں۔ ایسا شخص جس کا نام ای سی ایل میں نہیں وہ شخص تین بار وزیرِ اعلیٰ رہا۔ کیا وہ واپس نہیں آئے گا؟
انہوں نے کہا کہ اگر وفاقی حکومت کا خیال ہے کہ شہبازشریف واپس نہیں آئیں گے تو بطور گارنٹی کیا لینا چاہیں گے؟
سرکاری وکیل نے کہا کہ شہباز شریف نے اپنے بھائی نواز شریف کو چار ہفتوں میں واپس لانے کی گارنٹی دی تھی۔
عدالت نے کہا کہ کیا نواز شریف کی درخواست زیر التوا ہے؟ کیا وفاق نے نواز شریف کو دیا گیا ریلیف ختم کرنے کے لیے کوئی درخواست دی؟
سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ اسی وجہ سے وقت مانگ رہا ہوں کہ تمام متعلقہ اداروں سے معاونت حاصل کر لی جائے۔ جو شخص گارنٹی دیتا ہے وہ تو عدالتی حکم کی خلاف ورزی کرنے والا ہے۔ شہباز شریف تو شفاف انداز میں عدالت نہیں آئے۔
جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ جس گارنٹی کا آپ حوالہ دے رہے ہیں اس کے تین حصے تھے۔
دریں اثنا عدالت نے شہباز شریف سے استفسار کیا کہ آپ کو کیا جلدی ہے جو آپ برطانیہ جانا چاہتے ہیں۔
اس پر شہباز شریف نے کہا کہ میں کینسر کے مرض سے بچا ہوا ہوں۔ میں نے لندن میں ڈاکٹر مارٹن سے علاج کرایا اور جنوری 2003 سے انہی سے اپنا طبی معائنہ کرا رہا ہوں۔
عدالت نے شہباز شریف سے پوچھا کہ آپ بیرون ملک ٹیسٹ کے لیے کتنا وقت لیں گے؟ اس پر شہباز شریف نے جواب دیا کہ انہیں آٹھ ہفتے دیے جائیں تو وہ واپس آجائیں گے اور عدالتی حکم کی خلاف ورزی نہیں کریں گے۔
عدالت نے شہباز شریف کی درخواست پر ابتدائی سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا تھا جو بعد ازاں جاری کر دیا گیا۔
عدالت نے شہباز شریف کو مشروط طور پر بیرون ملک جانے کی اجازت دی اور انہیں آٹھ ہفتوں کے بعد پاکستان واپس آنے کا پابند کیا ہے۔
عدالت نے آئندہ سماعت پر وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے تفصیلی رپورٹ اور جواب طلب کر لیا ہ