ALTAF HUSSAIN YOU HAVE MISSED THE TRAIN ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کو اپنے آپکو بدلنا ھوگا اور سندھیوں سے معافی مانگنے کا کوئ فائیدہ نہیں
ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کو اپنے آپکو بدلنا ھوگا
تبدیلی کیا ھے۔۔
ایک حقیقت پسندانہ اور غیر جانبدارانہ تبصرہ
دنیا میں زندہ رہنا اور پیٹ بھرنا کوئ بڑی بات نہیں۔ کتے بھی بھوکے نہیں سوتے اور فقیر بھی تینوں وقت دس قسم کا کھانا کھاتا ھے۔کسی زمانے میں انسان جسم پر پتے باندھ کر رھتے تھے اور جانور مار کر پیٹ بھرتے تھے۔آج بھی کتا، بلی، شیر، بکری، فقیر سب پیٹ بھرتے ھیں۔
کبھی پتھر کا زمانہ تھا، کبھی دھات کا اور اب نیوکلیئر اور انسانی تاریخ کا سب سے روشن دور۔۔۔یہی تبدیلی ھے ورنہ لوگ آج بھی پتے باندھتے اور غاروں میں رھتے۔
مجھے یاد ھے 60-65 سال قبل انسان کا ھتیار کلہاڑی، چاقو اور ڈانگ ھوتی تھی اور آج ایسے ایسے ھتھیار ھیں کہ اللہ کی پناہ( میں جنگی ھتھیاروں کی بات نہیں کر رھا)۔
سواری کے لئے گدھا، گھوڑا اور اونٹ ھوتے تھے اور اب سائیکل، موٹر سائیکل، کار، ھوائ جہاز اور ھیلی کاپٹر ھیں۔
گدھا، گھوڑا اونٹ نہیں بدل سکتے تھے تو انسانوں نے سفر کے لئے نئے ذرائے تلاش کر لئے۔
مندرجہ بالا باتوں پر غور کریں تو انسان مسلسل ترقی تبدیلی کے ذریعہ کرتا آیا ھے۔ مجھے یاد ھے 40 سال قبل ڈرافٹمین ھاتھ سے گھروں کے نقشے بناتے تھے اور آج کمپیوٹر سے۔اب اگر کسی نے کمپیوٹر کو سوئچ نہیں کیا تو پھر وہ بے روزگار گھر بیٹھا ھوگا۔
پاکستان 73 سال بعد بھی وہیں کھڑا ھے جہاں سے شروع ھوا تھا۔آبادی بڑھانا، سڑکوں پر کاروں کی بھر مار، گھر میں ائیرکنڈیشنڈ، جدید اپلائینسیز، ایف 16 بمبار اور نیو کلئیر ھماری ایجادات نہیں ھم پیسوں سے خریدتے ھیں لیکن یہ بھی تبدیلی سے ھی ھوا اور اگر ھم ایسا نہیں کرتے تو کنوئیں کے مینڈک ھوتے۔
پاکستان اس لئے دنیا کی دوڑ میں پیچھے رہ گیا کیوں کہ اس ملک کے لوگ، حکمران، فوج اور ملکی نظام حکومتی ادارے اس لیول کی ترقی صرف اس لئے کر سکے کیونکہ انہوں نے روزانہ بنیاد پر اپنے اندر تبدیلی نہیں لائ جیسے بھارت، بنگلا دیش، چین، سری لنکا، ترکی اور ملائیشیا نےکی۔(میں امریکہ، یوروپ اور آسٹریلیا کی تو بات نہیں کررھا)۔
فوربز کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی 100 بڑی ٹیک کمپنیوں میں 40 امریکہ کی اور باقی مختلف یوروپی ممالک، جاپان، چین، اسکینڈینیوئین کی ھیں۔ پاکستان کا نیوکلیئر پلانٹ بھی کینیڈا کا دیا ھوا ھے، جنگی جہاز امریکہ اور چین کے ھیں وغیرہ۔۔
بنیادی طور پر ھمارا ملک اس درجہ ترقی نہیں کر سکا کیونکہ پاکستان ھے تو 21 ویں صدی میں، استعمال کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور ای میل کرتا ھے لیکن مزاج وہ 100 سال پرانا، جاگیردارانا، چوھدراھٹ، وڈیرہ شاہی، آمرانہ اور شاہانہ رکھتا ھے۔
پاکستانی فوج یہ سمجھتی ھے
“they were born to rule, dominate and govern”
الطاف حسین نے مارچ 1984 میں مہاجر قومی موومنٹ بنائ لیکن آج 37 سال گزرنے کے بعد جبکہ دنیا میں تو بھت کچھ بدل گیا ھے بالکہ پاکستان میں بھی کچھ نہ کچھ بدلا ھے لیکن الطاف حسین کا مزاج وہی مارچ 1984 کا ھے۔
انکی ناک کے نیچے انکی اپنی جماعت کے قریبی ساتھی جنہوں نے اپنے اندر تبدیلی لائ وہ آج بھی سرخرو ھیں اور حکومت میں بھی شامل لیکن الطاف حسین اسی پرانی روش پر ھیں۔
کار میں بھی “ایڈجسٹمینٹس” “شاک آبزربرز” ،”کلچ” اور “بریکس” ھوتے ھیں جس کے ذریعہ ،سڑک کی ضرورت کے تحت ڈرائیور گاڑی چلاتا ھے۔کبھی ایسا نہیں ھو سکتا آپ گھر سے 100 کی اسپیڈ سے گاڑی نکالیں اور بغیر، کلچ، بریک استعمال کئے اسی اسپیڈ میں حیدرآباد پہنچ جائیں۔
الطاف حسین کے ساتھ ایک مسئلہ اور رھا ھے وہ یہ کہ ان کے ساتھی، عہدہ دارن اور ورکرز ان کے سامنے بات نہیں کر سکتے تو وہ انہیں مشورے کیا دیتے۔
مشاورت تو حضور اکرم محمد صل للہ الیہ والی وسلم بھی کیا کرتے تھے۔ مائکروسوفٹ کے بانی اور موجد اور دنیا کی دیگر لاکھوں کروڑوں کمپنیاں بھی “فیڈ بیک” کو اپنے کاروبار کا ایک جز سمجھتی ھیں بالکہ ایم کیو ایم کی لندن ویب سائیٹ جو 25 سال پہلے بنائ گئ اس میں بھی “فیڈ بیک” کا آپشن دیا گیا تھا اور شاید آج بھی ھو!
الطاف حسین نے سیاست تو شروع کی متوسط طبقہ کے نام پر لیکن خود کبھی عوامی لیڈر نہیں بننا چاہتے تھے۔ان کا مزاج ھمیشہ dominating, dictatorial
اور common man والا نہ تھا
آخر ان تمام ” پرسنالٹی ڈس آرڈر” کا نقصان کسے ھوا؟ مہاجر قوم کو اور انہیں خود کو۔ وہ چاہتے تو آج بھی جنرل مشرف کے دور سے زیادہ مضبوط، طاقتور اور دولتمند لیڈر رہ سکتے تھے لیکن
stubbornness, arrogance, overconfidence,
کیوجہ سے آج وہ 37 سال تو کیا بالکہ 50 سال پیچھے چلے گئے۔
آخری بات: اگر الطاف حسین واقعی پاکستانی سیاست میں کوئ رول ادا کرنا چاہتے ھیں تو انہیں اپنے اندر ” تبدیلی” لانا ھوگی اور اگر باقی زندگی لندن میں ھی گزارنی ھے تو لندن میں تو اور بھی 85 لاکھ لوگ رھتے ھیں۔لیکن یہ ھو نہیں سکتا آپ رھیں 1984 میں اور زندگی گزاریں 2021 میں۔
آج بھی میڈیا پر پوری دنیا سے ایم کیو ایم کے تمام چھوٹے، بڑے، پڑھے لکھے، کم تعلیم یافتہ کی 90 فیصد لوگوں کا یہ عالم ھے اور اس امید پر بیٹھے ھیں جو 5- 6 سال پہلے تھی کہ پھر وحی بدمعاشی ھوگی۔
افسوس ٹائم سلپ نہیں ھو سکتا۔۔آپ کو مستقبل میں رھنا ھو گا یا پھر گمنامی میں!
بلاگر کا پروفائل:
اس حصہ میں مجھے کچھ اور نہیں بتانا کیونکہ میرے بلاگ پروفائل پر تفصیل لکھی ھوئ ھے۔ ھاں البتہ یہ بتانا اس لئے ضروری ھے کیونکہ مجھے یقین ھے میرے اس کریٹیکیل نوٹ پر ایم کیو ایم کے بھت سے لوگ صحت مند تبصرہ کرنے کی بجائے ذاتیات پر حملے کرینگے۔ تو وہ کان کھول کر سن لیں میں اور میری فیملی، ایک بھائ کے علاوہ کوئ ایم کیو ایم کی پیداوار نہیں۔ جب مجھے 1960 میں ھوش سمبھالا تو میرے والد محمد رفیق خان ایک برٹش بیسڈ کمپنی کے جنرل مینیجر تھے اور اس وقت الطاف حسین 6 سال کے تھے۔
ھم 6 بھائیوں میں میرے سمیت اور میری بیگم 1975- 78 میں 17 17 گریڈ کے افسر تھے جبکہ ایم کیو ایم 9 سال بعد 1984 میں بنی اور ھم 4 بھائ 20 گریڈ تک گئے، ایک بھائ 21 گریڈ سے ریٹائر ھوا۔ ایک بھائ کو ایم کیو ایم نے نوکری دلائ تھی وہ ساری زندگی دھکوں میں رھا اور ریٹائر ھونے سے قبل ھی قبر میں چلا گیا۔ ھم بھائ بھنوں کی 3 فیملیز 1994 سے کینیڈا کی شہریت رکھتے ھیں جس میں ایم کیو ایم کا ایک نقطہ بھی شامل نہیں بالکہ ھم تمام بھائیوں کے بچے انگلینڈ، کینیڈا اور امریکہ میں ھیں۔
جب میں کینیڈا آیا تو اس وقت تازہ تازہ ایم کیو ایم لندن سکریٹیٹ بنا تھا اور دفتر میں ٹائپ رائٹر بھی نہیں ھوتا تھا میرے پاس آج بھی لندن آفس کے سنئیر عہدہ داران کے ھاتھ کے لکھے ھوئے خطوط سبز، لال لیٹر ھیڈ پر یہاں کینڈا میں موجود ھیں۔ گو کہ میں زندگی میں کبھی پارٹی کا ممبر یا عہدہ دار نہیں رھا لیکن میں نے کئی سال الطاف حسین کی محبت میں پوری دنیا میں ویب پیجز اور ای میل کے ذریعہ پارٹی کی سپورٹ کی(اس وقت میڈیا ٹی وی نہیں تھا)۔
ریکارڈ کیلئے، میں نے تو بینک 1997 میں ھی چھوڑ دیا تھا لیکن میرے کئ ساتھی جو دیہی علاقوں سے تھے جنرل مینیجرز اور سینئر وائس پریزیڈنٹ ھو کر ریٹائر ھوئے۔ بتاناطیہ تھا کہ ان میں کوئ بھی خود یا انکا کوئ بھائ، چاچا، ماما ایم کیو ایم میں نہیں تھا۔
شفیق احمد خان
کینیڈا
جون 27، 2021
