مہاجروں کی سابقہ لیڈرشپ کو رہ رہ کر پیٹ کے درد کا مروڑ اٹھتا ہے

سال میں دو چار بار ایسا ہوتا ہےکہ مہاجروں کے کچھ لوگ انفرادی یا اجتماعی طور پر مہاجروں کے حقوق کی بات کرتے نظر آتے ہیں۔ لیکن انکی اوقات اب چلے ہوئے کارتوسوں سے زیادہ نہیں کیونکہ جب یہ ڈرائینگ روم میں بیٹھے بیٹھے تھک جاتے ہیں یا ان کے پاس پیسے ختم یا کم ہونے لگتے ہیں تو یہ دل کو بہلانےاور موسم کی تبدیلی کی خاطر مہاجر یکجہتی کا پہاڑہ پڑھنا شروع کر دیتے ہیں

انہیں نہیں معلوم مہاجروں کی ہماری نسل کے لوگ ( دراصل کاکے منڈے تو اب وہ بھی نہیں رہے 60 سے اوپر سب ہیں) الطاف حسین کے بعد گردن گردن بھرگئے اور تپے ہوئے ہیں۔ رہ گئے 30 سے نیچے کے نوجوان وہ سیلفیوں اور چھوکریوں کے پیچھے قابو ہیں لیکن 30 سال سے اوپر والے جو لائق ہیں وہ اپنی اہلیت کی بنیاد پر یا تو ملک میں ہی کسی پرائیوٹ کمپنی میں ملازمت لے لیتے ہیں یا پھر دنیا بہت بڑی یے 200 ممالک ہیں کہیں بھی روزگار کی تلاش میں نکل جاتے ہیں۔

مہاجروں کے ذھن سے اب سرکاری ملازمت کا بھوت نکل چکا ہے کیونکہ ملتی جو نہیں اس کا کریڈٹ بھی ایم کیو ایم کو جاتا ہے۔

دراصل مہاجر قوم نہ تو دور اندیش ہے، نہ ان میں وقت کی قدر ہے اور نہ ہی یہ ڈسیپلنڈ ہیں۔

ماضی میں بھی ایسا ہوا اور اب بھی مہاجروں کے نام نہاد لیڈرز یہ سمجھتے ہیں وہ ہزار ہزار سال کی عمریں لکھا کر لائے ہیں۔ یہ انکی حکمت عملی سے پتا چلتا ہے۔
میں پچھلے 35 سالوں سے دیکھ رہا ہوں
rather I am an eye witness to this crap

مہاجرو !
یاد رکھو اب جو بھی مہاجروں کی سیاست لے کر اٹھے گا وہ سو فیصد اسٹبلشمینٹ کا ایجنٹ ہوگا کیونکہ مہاجروں کے پاس اس وقت دو پیسے کی بھی لیوریج leverage نہیں اور کیوں کوئی کسی کو مفت میں پلیٹ میں رکھ کر حقوق دیگا اور کس لئے؟ آپ بتائیں

حرف آخر!

خوب تعلیم حاصل کریں (ڈگریاں نہیں تعلیم) اور نکل جائیں کہیں بھی اللہ کی زمین بہت بڑی ہے اور یاد رکھو پاکستان میں بالکہ اس ریجن میں سیاسی حالات بہت خراب ہونے والے ہیں۔
اپنے لئے نہیں تو اپنی اولادوں کے لئے۔

میرے والد برما میں پیدا ہوئے اور سینٹ مائیکل کانونٹ اسکول سے تعلیم حاصل کی۔ دوسری جنگ عظم میں تھوڑے عرصہ برٹش آرمی میں رہے۔جنگ ختم ھوئے کے بعد لکھنو بھارت آگئے۔
پاکستان بنا تو پاکستان آگئے۔
آج میرے سمیت ھماری تمام فیملی بہن بھائ امریکہ، کینیڈا، انگلینڈ می سیٹل ہیں

جب ہم تھر سے نکل کر 26 سال قبل امریکہ انگلینڈ کینیڈا آ سکتے ہیں تو آپ کیوں نہیں؟

یہ بھی یاد رکھو مستقبل میں پاکستان میں کتے کو روٹی مل جائیگی تمہیں نہیں

اور میں یہ صرف مہاجروں کیلئے نہیں کہ رہا بالکہ سندھی، پنجانی، بلوچی، پٹھان سب کیلئے کہ رہا ہوں جو غریب اور نچلے یا درمیانہ طبقہ سے ہیں۔۔

شفیق خان،کینیڈا

Author: HYMS GROUP INTERNATIONAL

ex Chairman Edu Board, Reg Dir Sindh Ombudsman, Bank Exec; B.A(Hons) M.A English, M.A Int Rel, LL.B, 3 acreds from Canada

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Twitter picture

You are commenting using your Twitter account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

%d bloggers like this: