ڈاکٹر عشرت العباد خان کو آج بھی پورے ملک بالخصوص صوبہ سندھ میں بڑی پذیرائی حاصل ہے
کل میں نے سندھ صوبہ کے طویل ترین گورنر ڈاکٹر عشرت العباد خان کے تعلق سے اپنے مضمون میں جو تجزیہ کیا تھا اسے زندگی کے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد نے بڑی تعداد میں سراہا ہے۔ جس میں کاروباری حضرات، ملازم پیشہ، اساتزا، طالبعلم، پروفیشنلز، سیاست دان اور مذہبی جماعتوں کے افراد بھی شامل ہیں۔ یہاں تک کے ایک بڑی پارٹی( ایم کیو ایم نہیں) کے قومی اسمبلی کے ممبر نے بھی ڈاکٹر صاحب کے لئے بڑے تعریفی کلمات کہے۔
ڈاکٹر صاحب کی تیرہ سالا سندھ کے گورنر کے دور میں بڑی لینڈ مارک achievements ہیں جو صوبہ سندھ کے ساتھ زندہ رہینگی۔
اندرون سندھ میں میرپورخاص اور مٹھی نگرپارکر میں ریجنل محتسب کے دفاتر کا قیام، میرپورخاص تعلیمی بورڈ جس سے کوئ ستر ہزار بچے سالانا مستفید ہوتے ھیں اور تین سو افراد کو روزگار ملا اور ہزاروں گھروں کے چولہے جلتے ہیں ، سندھ یونیورسٹی کیمپس، کراچی ناگن چورنگی فلائی اوور، کراچی شہر کیلئے لانگ ٹرم سٹی گرین منصوبے، بیچ ویو پارک، کراچی شہر کیلئے دیگر پارکس، کھیل کے میدان، اور بے شمار ایسے اقدام شامل ہیں جن سے ہزاروں لوگوں کو روزگار بھی ملا اور تعلمیی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوا۔
اس کے علاوہ ڈاکٹر صاحب نے صوبہ بھر میں امن بھائ چارے کو فروغ دینے اور مذہبی ہم آہنگی پیدا کر کے بڑے بڑے مسائل حل کئے اور confrontational politics کو avert کیا۔
میری نظر میں ڈاکٹر صاحب کا ایک بہت ہی قانل تعریف اور بڑا کارنامہ ہیومن رائٹس سے متعلق ہے جو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائیگا وہ انصار برنی ٹرسٹ کے ساتھ مل کر 22 پاکستانی اور بھارتی یرغمالیوں کو سومالیا کے قزاقوں کی قید سے چھڑا نا تھا جس میں ڈاکٹر صاحب نے کلیدی کردار ادا کیا کروڑوں روپئیے تاوان کا بندوبست کروایا جو قزاقوں کو دیا گیا۔
شفیق خان، کینیڈا
