- علی عثمان قاسمی
- محقق و مورخ
17 دسمبر 2021، 11:19 PKT

اردو زبان کی تاریخی رزمیہ کہانیوں میں بادشاہ اپنی جان کسی پرندے میں منتقل کر کے اسے کسی محفوظ اور خفیہ مقام پر بند کر دیتے تھے۔ اگر بادشاہ کو قتل کرنا مقصود ہو، تو اس کے لیے اس پرندے کو مارنے کی شرط ہوتی تھی۔
میجر جنرل کے عہدے سے ریٹائر ہونے والے خادم حسین راجہ، جو کہ مارچ 1971 میں بنگالیوں کے خلاف پاکستانی فوج کے ‘آپریشن سرچ لائٹ’ کے مرکزی معمار بھی تھے، نے اپنے گھر میں ایک مینا پال رکھی تھی۔
لیکن اس کے علاوہ ان کے پاس ایک اور ‘مینا’ تھی جو کہ ان کے گھر کا پالتو پرندہ نہیں، بلکہ بنگلہ دیش کی آزادی کی قیادت کرنے والے رہنما شیخ مجیب الرحمان کو دیا گیا خفیہ نام تھا۔
اپنی آپ بیتی میں خادم حسین راجہ لکھتے ہیں کہ انھوں نے شیخ مجیب کو ‘مینا’ کا خفیہ نام اس لیے دیا تاکہ جب وہ مغربی پاکستان میں اپنے گھر والوں سے بات کر رہے ہوں تو ان کا نام نہ استعمال کریں۔اشتہارhttps://647fb8a2d04e4daee481421b5c8799fb.safeframe.googlesyndication.com/safeframe/1-0-38/html/container.html
جب 25 اور 26 مارچ کی درمیانی شب، پاکستانی فوج نے بھاری اسلحہ استعمال کرتے ہوئے ڈھاکہ پر اپنا کنٹرول حاصل کیا اور شیخ مجیب الرحمان کو حراست میں لے لیا تو اس بارے میں ذکر کرتے ہوئے خادم حسین راجہ لکھتے ہیں: ‘بظاہر مینا کا دل کمزور تھا، اور وہ ٹینکوں اور رائفلوں کی گھن گرج برداشت نہ کر سکی۔’
بعد میں جب خادم حسین راجہ کی اہلیہ نے اپنی بیٹی کو فون کیا اور اسے مینا کی موت کی خبر دی، تو وہ سمجھی کہ ان کی والدہ درحقیقت شیخ مجیب کی بات کر رہی ہیں اور وہ فوجی آپریشن میں ہلاک ہو گئے ہیں۔
یہاں یہ کہانی بیان کرنے کی وجہ وہ خیال ہے کہ کہیں خادم حسین راجہ کی مینا اپنے ساتھ پاکستان کی روح اور زندگی تو اپنے ساتھ نہیں لے گئی، اور نہ ان کی پالتو مینا اُس رات ڈھاکہ میں ہونے والے فوجی آپریشن کی آواز کی تاب لا سکی، اور نہ ہی پاکستان۔

پاکستان محققین اور صحافیوں کے لیے 1971 کے واقعات کے بارے میں لکھنا آسان نہیں ہے۔ اس موضوع پر جتنا بھی مواد موجود ہے، یا عوامی طور پر 1971 کے بارے میں جو بیانیہ مقبول ہے، اس میں انڈیا کی سازشوں اور مکتی باہنی کی زیادتیوں کو مورد الزام ٹھیرایا جاتا ہے۔
بس برائے نام ہی یہ ذکر کیا جاتا ہے کہ بنگالیوں کے ساتھ سالوں سال ناانصافی کی گئی اور اس کی وجہ سے 1971 کے واقعات رونما ہوئے، اور اس سے سیکھے گئے اسباق کو بس یہ کہہ کر آئینی تاریخ کے کونے کھدروں میں دیا جاتا ہے کہ صوبائی خود مختاری کے مطالبات اور انتخابی عمل کی شفافیت کتنی ضروری ہے۔
لیکن یہ طرز عمل انسانی تکلیف اور المیے کے متعلق اُن اہم سوالات کو نظر انداز کر دیتا ہے جو ان لاکھوں، کروڑوں پاکستانی اور بنگالیوں کے ذہنوں پر ابھی بھی نقش ہیں۔
پاکستانی تاریخ دانوں میں صرف انعم زکریا کی حالیہ کتاب اس بیانیے سے ہٹ کر تصویر پیش کرتی ہے۔ ان کی کتاب کی جامع تحقیق اور اس کا دائرہ کار، اور عرق ریزی سے کیا گیا تجزیہ ایک ایسی حقیقی کاوش ہیں جس میں پاکستانی اور بنگلہ دیشی نقطہ نظر کو بہت عمدہ طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔
لیکن اس کتاب کے علاوہ اگر دیکھیں تو سرمیلا بوس کی ‘ڈیڈ ریکوننگ’ کی اشاعت کے بعد سے پاکستان میں 1971 کے واقعات پر ہونے والی بحث کی توجہ صرف پاکستان کے اس دعوی پر ہے کہ اس نے کچھ غلط نہیں کیا اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اس بیانیے میں خود کو بطور مظلوم پیش کیا جاتا ہے اور بنگالیوں پر بہاریوں کے قتل عام کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔
پراپگینڈا کرنے والے اور تاریخ کو مختلف پیرائے میں بیان کرنے والوں کا مقصد یہ نہیں ہے کہ وہ بنگلہ دیش میں عوامی رائے کو تبدیل کریں۔ ان کا مقصد محض یہ ہے کہ وہ پاکستانی بیانیے پر یقین کرنے والوں کو تسلی دیں، اور 1971 کے واقعات کو پاکستانی مظلومیت کے عدسے سے دیکھیں، اور اس وقت کی حکومت کی جانب سے شروع کیے گئے فوجی آپریشن شروع کرنے کے فیصلے کو اس اعتبار سے پرکھیں کہ یہ فیصلہ پاکستان کے ایک صوبے میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو ٹھیک کرنے کی غرض سے کیا گیا تھا۔

پاکستان میں 1971 کی تاریخ اور اس پر کی جانے والی بحث کے تین پہلو ہیں جو آج تک انتہائی متنازع ہیں۔
ان میں اولین پہلو تو اُن واقعات کے بارے میں ہے جو حالات کو مارچ 1971 میں کیے جانے والے فوجی آپریشن کی وجہ قرار دیے گئے اور جن کی روشنی میں بنگالی مزاحمت اور اسے قومی آزادی کہنا ناجائز قرار دیا گیا۔
دوسرا پہلو نسل کشی اور تشدد، اور ریپ کو بطور ہتھیار استعمال کرنے اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد کے بارے میں ہے جس میں بنگلہ دیشی موقف کے مطابق پاکستانی افواج نے تیس لاکھ لوگوں کو ہلاک کیا اور دو لاکھ سے زیادہ خواتین کو ریپ کیا جبکہ پاکستانی موقف کے مطابق مشرقی پاکستان میں بہاریوں کی نسل کشی کی گئی۔
تیسرا پہلو ہے کہ ان واقعات کے رونما ہونے کے دہائیوں بعد اب آگے کیسے بڑھا جائے اور اس کے لیے کیا ماضی کو بھلا دیا جائے یا اس دوران ہونے والے مظالم کی معافی طلب کی جائے۔
یہ مضمون 1971 کے حوالے سے پاکستان میں ہونے والی اس بحث کے تینوں پہلوؤں پر روشنی ڈالے گا۔ اس مضمون میں راقم کی کوشش ہوگی کہ یہ ثابت کیا جائے کہ مندرجہ بالا تینوں سوالات ایک دوسرے سے جڑُے ہوئے ہیں اور نہ صرف کہ یہ محض تاریخ کے سوالات ہیں، بلکہ کس طرح یہی سوالات پاکستان میں جمہوریت کے مستقبل کے لیے اہم ہیں۔

تشدد کے ہونے یا نہ ہونے کا قانونی جواز
اس مضمون کی شروعات 1971 کی جنگ، یا وہ واقعات جو اس جنگ کا سبب بنے، یا حتی کہ پاکستان کے قیام سے نہیں ہوگی بلکہ ہم اُس سے بھی سات سال پیچھے جائیں گے جب 23 مارچ 1940 کو لاہور میں قرار داد پاکستان منظور ہوئی جس نے پاکستان اور بنگلہ دیش کے قیام کی بنیادی اینٹ رکھی۔
مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں پیش کیے جانے والی قرار داد لاہور نے خود مختار، آزاد ریاستوں کے قیام کا مطالبہ کیا۔ لیکن صرف چند برس بعد مسلم لیگ نے قرار داد میں ‘ریاستوں’ کو بدل کر انڈیا کے مسلمانوں کے لیے ‘ریاست’ میں تبدیل کر دیا۔
اس کے بعد 50 کی دہائی میں بنگالیوں کی جانب سے پہلے حسین شہید سہروردی اور بعد میں شیخ مجیب الرحمان کی قیادت میں حزب مخالف نے مطالبہ کیا کہ پاکستان کا وفاقی جمہوری آئین صوبائی خود مختاری کی بنیاد پر ہو جیسا کہ لاہور قرارداد میں درج تھا۔
شیخ مجیب الرحمان کے تاریخی چھ نکات، جن کی بنیاد پر انھوں نے 1970 میں ہونے والے انتخابات میں فیصلہ کن فتح حاصل کی تھی، وہ بھی 30 برس قبل منظور ہونے والی قرار دادِ لاہور سے متاثر تھے۔