مجھے نیب چئیرمین سے اپنے ایک سوال کا جواب چاہئے
میں 2011 سے 2014 تک میرپورخاص انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن بورڈ کا چئیرمین رہا۔ میرے دور میں 14گرڈ سے نیچے؛ گارڑز،چوکئدار، مالی،بھنگی، بک بائنڈر، جونئرکلرکس، کمپیوٹر آپریٹرز، ڈرائیورز کی 113 ملازمین کی بھرتیاں ہوئیں جو 12 ممبرز کے بورڈ آف گورنرز سے منظور شدہ تھیں۔
ان 113 ملازمین میں 55 وہ ملازمین تھے جو 2005 سے ڈیلی ویجز پر چلے آ رہے تھے اورمیرے دور میں ریگولرائز ہوئے۔
جون 2014 میں میرے استعفا دینے کے بعد پیپلز پارٹی کی سندھی لابی جن کے سرغنہ پیپلز پارٹی کے متعصب ترین بدبودار سابق وزیر تعلیم پیر مظہر الحق اور بورڈ میں کام کرنے والا انکا ایک 18 گریڈ کا سانڈھو آفس غلام احمد سرغنہ تھے انہوں نے نیب کے ذریعہ غیر قانونی 113 ملازمین کی بھرتیوں کا ریفرینس داخل کروا دیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان 113 ملازمین میں 6 پیر مظہر کے اپنے رشتہ دار ہیں اور ان میں غلام احمد کا بڑا بھائ بھی شامل ہے۔
نیب کی عدالتیں ویسے تو ڈاکٹر عاصم، شرجیل میمن، سراج درانی اور خورشید شاہ جیسوں جن پر چار چار سو پانچ سو اربوں کے ریفرینس ہیں ٹرائل مکمل نہیں کرتیں اور انہیں ادھر ادھر گھما لٹکا کر وقت نکالتی ہیں کہ پھر کوئ این آر او آئیگا اور سب بری ہو جائینگے لیکن میرا ٹرائل حیدرآباد نیب کورٹ کے جج نے بڑی جانفشانی سے رات دن لگا کر چار سال میں مکمل کیا اور فروری 2021 کو سزا بھی سنا دی۔ جج انعام کلہوڑو کا بس چلتا تھا تو وہ ہفتہ اتوار کو بھی ٹرائل کرتے۔۔۔پریشر جو تھا پیپلوں کا کہ انیس ایڈووکیٹ کا بھائ کو سزا ضرور سنانی یے۔
پیپلز پارٹی کے مندجہ بالا وزیروں کو سال چھ ماہ سیون اسٹار نما جیل کم ہسپتال کم بنگلوں میں رکھ کر چھوڑ دیا (یاد رہے میں آصف زرداری، انور مجید، اور سمٹ بینک کے قدوائی کی تو بات ہی نہیں کر رہا)۔
سزا میں 5 سال قید اور تیرہ کروڑ جرمانہ۔
یہ وہ تیرہ کروڑ ہیں جو میرے تین سالہ دور میں 113 ملازمین نے تنخواہیں لیں یعنی beneficiary وہ 113 ملازم ہیں۔
اکوئی غبن، فراڈ کا اکزام نہیں بلکہ ان 113 ملازمین کی وجہ سے قومی خزانہ کو تیرہ کروڑ کا نقصان پہنچا۔
بھائ میں تو 2014 میں چلا گیا تھا لیکن وہ 113 ملازمین تو آج سات سال گزرنے کے بعد بھی بدستور بورڈ میں کام کر رہے ہیں۔
سوال یہ ہے اگر وہ میرے دور میں وہ “ناجائز” تھے تو اب سات سالوں سے کیسے “جائز” ہیں؟؟؟
شفیق احمد خان
کینیڈا
جنوری 20، 2021