ریاست کی ترقی اس میں بسنے والے انسانوں سے ہے اور انسان کی زندگی مرتے دم تک سیکھنے میں گزرتی یے:
جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے اور 27 سال نارتھ امریکہ میں بھی رہتے ہوگئے میں نے کبھی کسی گورے حکمران، سیاستدان یا سوشل ورکرز کو “انگریزی زبان” کے تعلق سے کوئ سیمینار کرتے نہیں دیکھا کہ؛
“انگریزی کو پروموٹ کرتے ہوں یا یہ کہتے نہیں سنا کہ انگریزی زبان کو خطرہ ہے”۔
ہاں البتہ بی بی سی اور وائیس آف امریکہ سے لے کر ہزاروں ادارے دوسری قوموں کو encourage ضرور کرتے ہیں کہ انگریزی سیکھیں اور مغربی دنیا کے شانہ بشانہ چلیں۔
زبانوں کو سارے خطرات صرف پاکستان میں ہی ہیں؛
“کبھی اردو کو خطرہ، کبھی پشتو کو کبھی سندھی اور بلوچی کو تو کبھی پنجابی کو”۔
“مت نکلنا ان علاقائی سوچ سے کمبختو اور رینگتے رہنا اس دنیا کی دوڑ میں”۔
کار استعمال کرو بی ایم ڈبلیو اور مرسیڈیز، گھر میں کچن بنواوء اٹالین اور باتھ روم میں نلکے لگواء فرانس کے پر سیمینار کرو زبانوں پر۔۔۔ کر لی تم نے ترقی۔
پیدا ہو کر، بچے پیدا کر کے، کھا کر اور ہگ کر تو جانور بھی مر جاتے ہیں پھر جانوروں میں اور تم میں فرق کیا ہے؟
اب تو ہم ہہ بھی نہیں کہ سکتے کہ جانور
کھڑا ہو کر موتتا ہے کیونکہ یہ کام تو اب ہم بھی کر ریے ہیں۔
شفیق احمد خان، کینیڈا۔۔اکتوبر 11، 2022