Bitches of the Riches/امیروں کی رنڈیاں
دو سال پہلے کی بات ہے پاکستان کی عدلیہ کے لئے دو باتیں سامنے آئ تھیں۔
(ایک تو یہ کہ گلوبل جیورسٹ لسٹ میں پاکستان کی عدلیہ 128ویں نمبر پر ہے جو کہ شرم کی بات ہے، اک ایسے ملک میں جو دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک ہے، جس میں سب سے زیادہ حاجی ہیں اور جہاں دنیا میں سب سے زیادہ لوگ عمرہ کرنے جاتے ہیں۔ جہاں دنیا کا سب سے بڑا تبلیغی اجتماع ہوتا ہے۔ جہاں کی مسجدیں پانچ وقت نمازیوں اور جمعہ کو بھری ملتی ہیں۔ جہاں دنیا میں سب سے زیادہ مسجدیں اور مدرسے ہیں)۔
ایسے ملک کے لئے 128ویں نمبر ہونے پر امریکہنکے ایک اخبار نے
پاکستان عدلیہ کے ججوں کو bitches of the riches کہا۔
اس کی تفصیل کچھ اسطرح ہے:
Virginia’s Newspaper put headlines “Are Pakistani courts wealthy bits?”On 17 November 2019, when it was released. news report on “Bitches of The Riches” Virginia’s Newspaper’s
Shortly after the release of Newspaper in the markets, on November 17, 2019, “Bitches of the wealthy” and “Bitches of the rich” became top trends on Facebook.
The phenomenon started when a Twitter user shared a picture showing a Virginia newspaper, the United States with a headline, “Are Pakistani courts wealthy bitches?”. Watch Rabi Pirzada’s latest video as well.
Some Pakistani Americans later conducted an interview with some of his American friends who gave the same opinion about judges saying “Pakistani judges are rich bitches.”
UNQUOTE.
میں ایک پاکستانی ہونے کے ناطے آج دنیا کو بتانا چاہتا ہوں کہ صوبہ سندھ اور پنجاب میں ڈسٹرکٹ اور سیشن کورٹس سے لے کر ہائ کورٹس اور سپریم کورٹ تک 95 فیصد ججز انہی دونوں صوبوں کے وڈیروں اور چوہدریوں کے بھائ بند، دوست یار، رشتہ دار یا آصف زرداری اور نواز شریف کی پارٹیوں؛ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے “سفارشی” ہیں۔
یہ سلسلہ میں پچھلے کئی دیائیوں سے جاری ہے۔ خاص کر سابق چیف جسٹس جسٹس افتخار چوہدری کی نام نہاد عدلیہ تحریک کے بعد اس نامے زیادہ جڑ پکڑی۔
خاص کر 20 سالوں سے ہائ کورٹس اور سپریم کورٹ میں روزانہ تمام کیسز سیاسی پارٹیوں کے لیڈران کے چلتے ہیں اور جج صاحبان کے پاس کسی غریب کی ایک بیل اپلیکیشن سننے کا بھی وقت نہیں ہوتا۔ اسی لئے اعلی عدالتوں میں بیس تیس لاکھ کیسز دہائیوں سے پینڈنگ چلے آ رہے ہیں۔ اور اوپر سے ہر سیاستدان اپنی انتخابی کمپین اور حکومت میں آنے کے بعد جھوٹا نعرہ لگاتا ہے کہ، “جس ملک میں انصاف نہیں ہوتا وہ ملک ترقی نہیں کر سکتا”
جھوٹ، سرا سر جھوٹ۔ آپ نے تو انصاف کو خریدا ہوا یے اور ججوں کو رنڈی بنایا ہوا ہے تو عدالتیں انصاف کہاں سے کریں گی؟
شفیق احمد خان، کینیڈا۔
دسمبر 1، 2022
