حکمرانوں اور اسٹبلشمنٹ کے مفاد میں ہے کہ اسٹیٹس کو کو برقرار رکھیں:
تنخواہ دار اور پروفیشنل صحافی اور اینکرز، حکمرانوں، سیاستدانوں اور اسٹبلشمنٹ کی بگڑی ہوئ شکل ہیں اور یہ انہی تینوں کے لئے اپنی زبان میں کام کرتے ہیں۔
سب کا مشن اسٹیٹس کو کو برقرار رکھنا ہے سلیس اردو میں “ٹرک کی بتی” کے پیچھے عوام کو لگائے رکھنا۔
اس پورے پراسس میں شفیق خان، حامد میر، منصور علی خان، شہباز شریف، جنرل عاصم منیر، آصف زرداری کا ایک دھیلے کا نقصان نہیں ہو رہا اگر دوائی نہیں مل رہی تو جمعہ خان کو، بھوک ہے تو پھجے کے گھر میں، غربت اور تنگدستی ہے تو کسی پٹھان، بلوچ یا عام سندھی، مہاجر کے گھر میں۔
عمران خان اس دن پیدا ہی نہیں ہوا کہ وہ چوروں سےمذاکرات کرے اور اسے مذاکرات کرنے بھی نہیں چاہئیں۔
حکمرانوں، اسٹبلشمنٹ اورعمران خان میں lack of trust اتنا wide ہے کبھی mend نہیں ہوگا۔ مزاکرات تو کمزور کرتے ہیں وہ نہیں جن کےساتھ پاپولر ووٹ ہو۔
ان 3 میں 2 فریق کا خاتمہ ضروری ہے۔
یہ شوشا بھی حکمرانوں اور اسٹبلشمنٹ نے صحافیوں کے ذریعہ چھوڑا ہے موجودہ الیکشن اور سپریم کورٹ کے معاملہ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے۔

