ایک توجہ طلب بات:/grow up folks
جو بات میں کہنا چاہتا ہوں اس کے لئے مجھے تمہید باندھنی پڑ رہی ہے۔
جدید دنیا، خاص کر مغربی معاشرہ میں (اکثر مغربی معاشرہ کا ذکر اس لئے ہوتا ہے کہ وہ 100 فیصد تعلیم یا فتہ سوسائیٹی ہے اور دنیا میں ترقی یافتہ قومیں بھی جبکہ ہم اول تو 100 فیصد پڑھے لکھے نہیں دوئم اور اگر ہیں بھی تو پڑھے لکھے جاہل ہیں)۔
مغرب میں راستہ چلتے ہر ایک سے رشتے نہیں جوڑتے۔۔چاچا، مانا، بابا، دادا، انکل، آنٹی، وغیرہ۔ اگر 8 سال کا بچہ بھی کسی 50 سالا یا 70 سالہ سے مخاطب ہو گا تو یا تو سر کر کے بات کریگا یا مسٹر یا پھر اس کا نام لے کر۔
بالکہ اب تو پاکستان میں بھی میں نے میڈیا پر دیکھا ہے لوگ آنٹی، انکل، بابا، باجی، بہن، بیٹی، بیٹا کہنے سے چڑ جاتے ہیں۔ اس لئے آپ جناب اور اگر عورت ہے تو مس، میڈم یا نام سے پکار لیں۔
میرپورخاص روٹری کلب کے ایک بہت ایکٹو صاحب ہیں وہ جب بھی فاطمہ بھٹو کی تصویر فیسبک پر دیکھتے ہیں تو فورا “جی بہن” کرتے ہیں۔ان کا بس نہیں چلتا اگر فاطمہ بھٹو سامنے ہو تو اسے گلے لگا لیں بعد میں بھلے فاطمہ کے گارڈ دھنائ کر دیں۔
اگر فاطمہ بھٹو میرے سامنے ہو تو میں اسے سیدھا نام سے پکاروں، “فاطمہ” یا “مس فاطمہ” کوئ میڈم ویڈم ، بہن، بیٹی نہیں۔
حالانکہ میں فیسبک کمنٹ میں دبے زبان ایک بار انہیں ٹوک بھی چکا ہوں پر وہی مرغے کی ایک ٹانگ۔
پاکستانیوں کا مسئلہ یہ یے کہ ایک تو انہیں آتا کچھ نہیں دوسرا وہ سیکھنا بھی نہیں چاہتے۔ حالانکہ سیکھنا تو قبر تک چلتا یے
Life ends but not the learning.
انگریزی میں ایک کہاوت ہے:
“It does not matter what are you wearing, what matters is that how you are carrying yourself”.
“اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ آپ نے کتنے قیمتی کپڑے پہنے ہوئے ہیں، اہمیت اس بات کی یے کہ آپ اپنے آپ کو کسطرح لے کر چل رہے ہیں”۔
Cheers ❤️❤️🌺🌺